تفسير ابن كثير



سورۃ طه

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيعًا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِنِّي هُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَى[123] وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى[124] قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمَى وَقَدْ كُنْتُ بَصِيرًا[125] قَالَ كَذَلِكَ أَتَتْكَ آيَاتُنَا فَنَسِيتَهَا وَكَذَلِكَ الْيَوْمَ تُنْسَى[126]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] فرمایا تم دونوں اکٹھے اس سے اتر جائو، تم میں سے بعض بعض کا دشمن ہے، پھر اگر کبھی واقعی تمھارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت آئے تو جس نے میری ہدایت کی پوری طرح پیروی کی تو نہ وہ گمراہ ہوگا اور نہ مصیبت میں پڑے گا۔ [123] اور جس نے میری نصیحت سے منہ پھیرا تو بے شک اس کے لیے تنگ گزران ہے اور ہم اسے قیامت کے دن اندھا کر کے اٹھائیں گے۔ [124] کہے گا اے میرے رب! تو نے مجھے اندھا کر کے کیوں اٹھایا؟ حالانکہ میں تو دیکھنے والا تھا۔ [125] وہ فرمائے گا اسی طرح تیرے پاس ہماری آیات آئیں تو توُ انھیں بھول گیا اور اسی طرح آج تو بھلایا جائے گا۔ [126]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] فرمایا، تم دونوں یہاں سےاتر جاؤ تم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہو، اب تمہارے پاس کبھی میری طرف سے ہدایت پہنچے تو جو میری ہدایت کی پیروی کرے نہ تو وه بہکے گا نہ تکلیف میں پڑے گا [123] اور (ہاں) جو میری یاد سے روگردانی کرے گا اس کی زندگی تنگی میں رہے گی، اور ہم اسے بروز قیامت اندھا کر کے اٹھائیں گے [124] وه کہے گا کہ الٰہی! مجھے تو نے اندھا بنا کر کیوں اٹھایا؟ حاﻻنکہ میں تو دیکھتا بھالتا تھا [125] (جواب ملے گا کہ) اسی طرح ہونا چاہئے تھا تو میری آئی ہوئی آیتوں کو بھول گیا تو آج تو بھی بھلا دیا جاتا ہے [126]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] فرمایا کہ تم دونوں یہاں سے نیچے اتر جاؤ۔ تم میں بعض بعض کے دشمن (ہوں گے) پھر اگر میری طرف سے تمہارے پاس ہدایت آئے تو جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ گمراہ ہوگا اور نہ تکلیف میں پڑے گا [123] اور جو میری نصیحت سے منہ پھیرے گا اس کی زندگی تنگ ہوجائے گی اور قیامت کو ہم اسے اندھا کرکے اٹھائیں گے [124] وہ کہے گا میرے پروردگار تو نے مجھے اندھا کرکے کیوں اٹھایا میں تو دیکھتا بھالتا تھا [125] خدا فرمائے گا کہ ایسا ہی (چاہیئے تھا) تیرے پاس میری آیتیں آئیں تو تونے ان کو بھلا دیا۔ اسی طرح آج ہم تجھ کو بھلا دیں گے [126]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 123، 124، 125، 126،

ایک دوسرے کے دشمن ٭٭

آدم علیہ السلام و حواء علیہا السلام اور ابلیس لعین سے اسی وقت فرما دیا گیا کہ تم سب جنت سے نکل جاؤ۔ سورۃ البقرہ میں اس کی پوری تفسیر گزر چکی ہے۔ تم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہو یعنی اولاد آدم اور اولاد ابلیس۔ تمہارے پاس میرے رسول اور میری کتابیں آئیں گی۔ میری بتائی ہوئی راہ کی پیروی کرنے والے نہ تو دنیا میں رسوا ہوں گے نہ آخرت میں ذلیل ہوں گے۔

ہاں حکموں کے مخالف، میرے رسول کی راہ کے تارک، دوسری راہوں پہ چلنے والے دنیا میں بھی تنگ رہیں گے، اطمینان اور کشادہ دلی میسر نہ ہو گی۔ اپنی گمراہی کی وجہ سے تنگیوں میں ہی رہیں گے گو بظاہر کھانے پینے پہننے اوڑھنے رہنے سہنے کی فراخی ہو لیکن دل میں یقین و ہدایت نہ ہونے کی وجہ سے ہمیشہ شک و شبہے اور تنگی اور قلت میں مبتلا رہیں گے۔ بدنصیب، رحمت الٰہی سے محروم، خیر سے خالی۔

کیونکہ اللہ پر ایمان نہیں، اس کے وعدوں کا یقین نہیں، مرنے کے بعد کی نعمتوں میں کوئی حصہ نہیں۔ اللہ کے ساتھ بدگمان ہیں، گئی ہوئی چیز کو آنے والی نہیں سمجھتے۔ خبیث روزیاں ہیں، گندے عمل ہیں، قبر تنگ و تاریک ہے۔ وہاں اس طرح دبوچا جائے گا کہ دائیں پسلیاں بائیں میں اور بائیں طرف کی دائیں طرف میں گھس جائیں گی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں، مومن کی قبر ہرا بھرا سرسبز باغیچہ ہے، ستر (‏‏‏‏70) ہاتھ کی کشادہ ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے گویا چاند اس میں ہے، خوب نور اور روشنی پھیل رہی ہے جیسے چودھویں رات کا چاند چڑھا ہوا ہو۔ اس آیت کا شان نزول معلوم ہے کہ میرے ذکر سے منہ پھیرنے والوں کی معیشت تنگ ہے۔ اس سے مراد کافر کی قبر میں اس پر عذاب ہے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:227/16:ضعیف] ‏‏‏‏

اللہ کی قسم اس پر ننانوے اژدھے مقرر کئے جاتے ہیں ہر ایک کے سات سات سر ہوتے ہیں جو اسے قیامت تک ڈستے رہتے ہیں۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:24426:ضعیف] ‏‏‏‏ اس حدیث کا مرفوع ہونا بالکل منکر ہے۔
5353

ایک عمدہ سند سے بھی مروی ہے کہ اس سے مراد عذاب قبر ہے۔ [مستدرک حاکم:381/2:حسن] ‏‏‏‏ یہ قیامت کے دن اندھا بنا کر اٹھایا جائے گا سوائے جہنم کے کوئی چیز اسے نظر نہ آئے گی۔ نابینا ہو گا اور میدان حشر کی طرف چلایا جائے گا اور جہنم کے سامنے کھڑا کر دیا جائے گا۔

جیسے فرمان ہے «‏‏‏‏وَنَحْشُرُهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ عَلٰي وُجُوْهِهِمْ عُمْيًا وَّبُكْمًا وَّصُمًّا ۭ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ ۭ كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنٰهُمْ سَعِيْرًا» [17-الإسراء:97] ‏‏‏‏۔ ” یعنی ہم انہیں قیامت کے دن اوندھے منہ اندھے گونگے بہرے بنا کر حشر میں لے جائیں گے ان کا اصلی ٹھکانہ دوزخ ہے۔ “ یہ کہیں گے کہ میں تو دنیا میں آنکھوں والا خوب دیکھتا بھالتا تھا، پھر مجھے اندھا کیوں کر دیا گیا؟ جواب ملے گا کہ یہ بدلہ ہے اللہ کی آیتوں سے منہ موڑ لینے کا اور ایسا ہو جانے کا گویا خبر ہی نہیں۔

پس آج ہم بھی تیرے ساتھ ایسا معاملہ کریں گے کہ جیسے تو ہماری یاد سے اتر گیا۔ جیسے فرمان ہے «فَالْيَوْمَ نَنْسٰىهُمْ كَمَا نَسُوْا لِقَاۗءَ يَوْمِهِمْ ھٰذَا ۙ وَمَا كَانُوْا بِاٰيٰتِنَا يَجْحَدُوْنَ» [7-الأعراف:51] ‏‏‏‏۔ ” آج ہم انہیں ٹھیک اسی طرح بھلا دیں گے جیسے انہوں نے آج کے دن کی ملاقات کو بھلا دیا تھا۔ “

پس یہ برابر کا اور عمل کی طرح کا بدلہ ہے۔ قرآن پر ایمان رکھتے ہوئے اس کے احکام کا عامل ہوتے ہوئے کسی شخص سے اگر اس کے الفاظ حفظ سے نکل جائیں تو وہ اس وعید میں داخل نہیں۔ اس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے جذامی ہونے کی حالت میں ملاقات کرے گا۔ [سنن ابوداود:1474:ضعیف] ‏‏‏‏
5354



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.